EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جو کچھ نگاہ میں ہے حقیقت میں وہ نہیں
جو تیرے سامنے ہے تماشا کچھ اور ہے

آفتاب حسین




کب بھٹک جائے آفتابؔ حسین
آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں

آفتاب حسین




کب تک ساتھ نبھاتا آخر
وہ بھی دنیا میں رہتا ہے

آفتاب حسین




کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے
دراصل سلسلہ پس پردہ کچھ اور ہے

آفتاب حسین




کھلا رہے گا کسی یاد کے جزیرے پر
یہ باغ میں جسے ویران کرنے والا ہوں

آفتاب حسین




کن منظروں میں مجھ کو مہکنا تھا آفتابؔ
کس ریگزار پر ہوں میں آ کر کھلا ہوا

آفتاب حسین




کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

آفتاب حسین