EN हिंदी
ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا | شیح شیری
har phul hai hawaon ke ruKH par khila hua

غزل

ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا

آفتاب حسین

;

ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا
اور میں ہوں اپنے خواب کے اندر کھلا ہوا

یہ میں جو رات دن نہیں اپنے حواس میں
وہ باغ ہے ضرور کہیں پر کھلا ہوا

کچھ میرے سر کو بھی تھی مہک سی چڑھی ہوئی
کچھ وہ بھی سامنے تھا برابر کھلا ہوا

خوابوں میں خوشبوئیں سی خیالوں میں رنگ سے
یہ باغ ہو اگر کہیں باہر کھلا ہوا

کن منظروں میں مجھ کو مہکنا تھا آفتابؔ
کس ریگزار پر ہوں میں آ کر کھلا ہوا