ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا
اور میں ہوں اپنے خواب کے اندر کھلا ہوا
یہ میں جو رات دن نہیں اپنے حواس میں
وہ باغ ہے ضرور کہیں پر کھلا ہوا
کچھ میرے سر کو بھی تھی مہک سی چڑھی ہوئی
کچھ وہ بھی سامنے تھا برابر کھلا ہوا
خوابوں میں خوشبوئیں سی خیالوں میں رنگ سے
یہ باغ ہو اگر کہیں باہر کھلا ہوا
کن منظروں میں مجھ کو مہکنا تھا آفتابؔ
کس ریگزار پر ہوں میں آ کر کھلا ہوا
غزل
ہر پھول ہے ہواؤں کے رخ پر کھلا ہوا
آفتاب حسین