EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جب سفر افسرؔ کبھی کرتے نہیں
دیکھے پھر کیوں ہو تم منزل کے خواب

افسر میرٹھی




مجھے فردا کی فکر کیوں کر ہو
غم امروز کھائے جاتا ہے

افسر میرٹھی




سکھ میں ہوتا ہے حافظہ بے کار
دکھ میں اللہ یاد آتا ہے

افسر میرٹھی




تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے

افسر میرٹھی




ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت
ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا

آفتاب حسین




ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی
ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے

آفتاب حسین




اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ
اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں

آفتاب حسین