کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں
میں اپنے آپ کو حیران کرنے والا ہوں
عجیب رنگ کی خوشبو ہے میرے کیسے میں
میں شہر بھر کو پریشان کرنے والا ہوں
کھلا رہے گا کسی یاد کے جزیرے پر
یہ باغ میں جسے ویران کرنے والا ہوں
دعائیں مانگتا ہوں سب کی زندگی کے لیے
اور اپنی موت کا سامان کرنے والا ہوں
کچھ اور طرح کی مشکل میں ڈالنے کے لیے
میں اپنی زندگی آسان کرنے والا ہوں
غزل
کہاں کسی پہ یہ احسان کرنے والا ہوں
آفتاب حسین