EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر
یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو

آفتاب حسین




عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی
رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں

آفتاب حسین




بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

آفتاب حسین




چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو
کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے

آفتاب حسین




دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

آفتاب حسین




دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ
سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے

آفتاب حسین




دنیا سے علیحدگی کا راستہ
دنیا سے نباہ کر کے دیکھا

آفتاب حسین