EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی

آفتاب حسین




فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا

آفتاب حسین




گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں

آفتاب حسین




گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا

آفتاب حسین




حال ہمارا پوچھنے والے
کیا بتلائیں سب اچھا ہے

آفتاب حسین




ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں
وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے

آفتاب حسین




حسن والوں میں کوئی ایسا ہو
جو مجھے مجھ سے چرا کر لے جائے

آفتاب حسین