ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی
آفتاب حسین
فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا
آفتاب حسین
گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں
آفتاب حسین
گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا
آفتاب حسین
حال ہمارا پوچھنے والے
کیا بتلائیں سب اچھا ہے
آفتاب حسین
ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں
وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے
آفتاب حسین
حسن والوں میں کوئی ایسا ہو
جو مجھے مجھ سے چرا کر لے جائے
آفتاب حسین