دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں
یہ تعلق تو کوئی رشتہ نہیں
لوگ کس کس طرح سے زندہ ہیں
ہمیں مرنے کا بھی سلیقہ نہیں
سوچیے تو ہزار پہلو ہیں
دیکھیے بات اتنی سادہ نہیں
خواب بھی اس طرف نہیں آتے
اس مکاں میں کوئی دریچہ نہیں
چلو مر کر کہیں ٹھکانے لگیں
ہم کہ جن کا کوئی ٹھکانا نہیں
منزلیں بھی نہیں مقدر میں
اور پلٹنا ہمیں گوارا نہیں
دوسروں سے بھی ربط ضبط رکھیں
زندگی ہے کوئی جزیرہ نہیں
کب بھٹک جائے آفتابؔ حسین
آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں
غزل
دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں
آفتاب حسین