شب سیاہ پہ وا روشنی کا باب تو ہو
مگر یہ شرط ہے کوئی ستارہ یاب تو ہو
میں حرف بن کے تری روح میں اتر جاؤں
مرا سخن تری محفل میں باریاب تو ہو
سواد شب کے سفر میں ستارہ وار چلوں
ترے جمال کی لو میری ہم رکاب تو ہو
کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو
اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر
یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو
وہ آفتابؔ لب بام بھی اتر آئے
مگر کسی میں اسے دیکھنے کی تاب تو ہو
غزل
شب سیاہ پہ وا روشنی کا باب تو ہو
آفتاب حسین