کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے
دراصل سلسلہ پس پردہ کچھ اور ہے
ہر دم تغیرات کی زد میں ہے کائنات
دیکھیں پلک جھپک کے تو نقشہ کچھ اور ہے
جو کچھ نگاہ میں ہے حقیقت میں وہ نہیں
جو تیرے سامنے ہے تماشا کچھ اور ہے
رکھ وادئ جنوں میں قدم پھونک پھونک کر
اے بے خبر سنبھل کہ یہ رشتہ کچھ اور ہے
تحریر اور کچھ ہے سر متن زندگی
اور حاشیے میں ہے جو حوالہ کچھ اور ہے
ہر چند دل دھڑکتا ہے پل پل گھڑی گھڑی
لیکن جو آج دل کو ہے دھڑکا کچھ اور ہے
اتنی بھی احتیاط نہ کر جان آفتابؔ
خدشے کچھ اور ہوتے ہیں ہوتا کچھ اور ہے
غزل
کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے
آفتاب حسین