دل بھی آپ کو بھول چکا ہے
صاحب آپ سے پردہ کیا ہے
کہنے سننے کی باتیں ہیں
کون کسے اپنا سکتا ہے
عشق میں کیا سچا کیا جھوٹا
یہ تو عمروں کا رونا ہے
حال ہمارا پوچھنے والے
کیا بتلائیں سب اچھا ہے
کیا کیا بات نہ بن سکتی تھی
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے
اب بھی دل کے دروازے پر
ایک دیا جلتا رہتا ہے
کب تک ساتھ نبھاتا آخر
وہ بھی دنیا میں رہتا ہے
دنیا پر کیوں دوش دھریں ہم
اپنا دل بھی کب اپنا ہے
غزل
دل بھی آپ کو بھول چکا ہے
آفتاب حسین