EN हिंदी
دل بھی آپ کو بھول چکا ہے | شیح شیری
dil bhi aapko bhul chuka hai

غزل

دل بھی آپ کو بھول چکا ہے

آفتاب حسین

;

دل بھی آپ کو بھول چکا ہے
صاحب آپ سے پردہ کیا ہے

کہنے سننے کی باتیں ہیں
کون کسے اپنا سکتا ہے

عشق میں کیا سچا کیا جھوٹا
یہ تو عمروں کا رونا ہے

حال ہمارا پوچھنے والے
کیا بتلائیں سب اچھا ہے

کیا کیا بات نہ بن سکتی تھی
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے

اب بھی دل کے دروازے پر
ایک دیا جلتا رہتا ہے

کب تک ساتھ نبھاتا آخر
وہ بھی دنیا میں رہتا ہے

دنیا پر کیوں دوش دھریں ہم
اپنا دل بھی کب اپنا ہے