نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے
وہ تیرگی ہے کہ یہ روشنی غنیمت ہے
چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو
کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے
کم و زیادہ پہ اصرار کیا کیا جائے
ہمارے دور میں اتنی سی بھی غنیمت ہے
بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ نظارگی غنیمت ہے
نہ جانے وقت کی گردش دکھائے گی کیا رخ
گزر رہی ہے جو یہ زندگی غنیمت ہے
غم جہاں کے جھمیلوں میں آفتاب حسینؔ
خیال یار کی آسودگی غنیمت ہے
غزل
نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے
آفتاب حسین