فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے
یہ کون دل میں در آیا ہے گھر بناتے ہوئے
نشیب چشم تماشا بنا گیا مجھ کو
کہیں بلندی ایام پر بناتے ہوئے
میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں
گزر رہا ہوں ابھی رہ گزر بناتے ہوئے
کسے خبر ہے کہ کتنے نجوم ٹوٹ گرے
شب سیاہ سے رنگ سحر بناتے ہوئے
پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے
کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے
مگر یہ دل مرا یہ طائر بہشت مرا
اتر ہی آیا کہیں مستقر بناتے ہوئے
دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ
سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے
غزل
فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے
آفتاب حسین