کمی رکھتا ہوں اپنے کام کی تکمیل میں
مبادا آپ کھو جاؤں کہیں تمثیل میں
بہت شدت رہی پہلے کنار چشم تک
امڈ آیا ہے اب وہ سیل رود نیل میں
مکان جاں لرزتا ہے ہوائے ہجر سے
چراغ یاد کو رکھیں گے کس قندیل میں
یہ گھڑیاں آہ پہ مجھ سے گریزاں ہیں اگر
تو پھر میں کیوں رہوں گا وقت کی تحویل میں
عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی
رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں
غزل
کمی رکھتا ہوں اپنے کام کی تکمیل میں
آفتاب حسین