مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے
کہیں کیا سلسلہ دل کا کہاں پر جا نکلتا ہے
مژہ تک آتا جاتا ہے بدن کا سب لہو کھنچ کر
کبھی کیا اس طرح بھی یاد کا کانٹا نکلتا ہے
دکان دل بڑھاتے ہیں حساب بیش و کم کر لو
ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے
ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی
ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے
میان شہر ہیں یا آئنوں کے روبرو ہیں ہم
جسے بھی دیکھتے ہیں کچھ ہمیں جیسا نکلتا ہے
یہ دل کیوں ڈوب جاتا ہے اسی سے پوچھ لوں گا میں
ستارہ شام ہجراں کا ادھر بھی آ نکلتا ہے
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
غزل
مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے
آفتاب حسین