EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مجھے گم شدہ دل کا غم ہے تو یہ ہے
کہ اس میں بھری تھی محبت کسی کی

افسر الہ آبادی




نہ ہو یا رب ایسی طبیعت کسی کی
کہ ہنس ہنس کے دیکھے مصیبت کسی کی

افسر الہ آبادی




تمہارے ہجر میں کیوں زندگی نہ مشکل ہو
تمہیں جگر ہو تمہیں جان ہو تمہیں دل ہو

افسر الہ آبادی




خوشنما دائرے بنتے ہی چلے جاتے ہیں
دل کے تالاب میں پھینکا ہے یہ کنکر کس نے

افسر آذری




آ میرے پاس اور کبھی اس طرح چمک
میرے بدن سے بھی ترا سایا طلوع ہو

افسر جمشید




نہ جانے اس قدر کیوں آپ دیوانے سے ڈرتے ہیں
چراغ انجمن ہیں اور پروانے سے ڈرتے ہیں

افسر ماہ پوری




ہے تیرے لیے سارا جہاں حسن سے خالی
خود حسن اگر تیری نگاہوں میں نہیں ہے

افسر میرٹھی