تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے
اگرچہ ایک زمانہ ہے دیکھنے کے لیے
کوئی نہیں جو ورائے نظر بھی دیکھ سکے
ہر ایک نے اسے دیکھا ہے دیکھنے کے لیے
بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے
ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو
تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے
گزر رہا ہے جو چہرے پہ ہاتھ رکھے ہوئے
یہ دل اسی کو ترستا ہے دیکھنے کے لیے
نہیں ہے تاب نظارہ ہی آفتابؔ حسین
وگرنہ دہر میں کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے
غزل
تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے
آفتاب حسین