EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں
یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں

عادل منصوری




نشہ سا ڈولتا ہے ترے انگ انگ پر
جیسے ابھی بھگو کے نکالا ہو جام سے

عادل منصوری




نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی
صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

عادل منصوری




پھر بالوں میں رات ہوئی
پھر ہاتھوں میں چاند کھلا

عادل منصوری




پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

عادل منصوری




پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا
اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے

عادل منصوری




تصویر میں جو قید تھا وہ شخص رات کو
خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا

عادل منصوری