سوئے ہوئے پلنگ کے سائے جگا گیا
کھڑکی کھلی تو آسماں کمرے میں آ گیا
آنگن میں تیری یاد کا جھونکا جو آ گیا
تنہائی کے درخت سے پتے اڑا گیا
ہنستے چمکتے خواب کے چہرے بھی مٹ گئے
بتی جلی تو من میں اندھیرا سا چھا گیا
آیا تھا کالے خون کا سیلاب پچھلی رات
برسوں پرانی جسم کی دیوار ڈھا گیا
تصویر میں جو قید تھا وہ شخص رات کو
خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا
وہ چائے پی رہا تھا کسی دوسرے کے ساتھ
مجھ پر نگاہ پڑتے ہی کچھ جھینپ سا گیا
غزل
سوئے ہوئے پلنگ کے سائے جگا گیا
عادل منصوری