پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں
پھر کسی یاد کی تلوار سے مارا جاؤں
پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں
دن کے ہنگاموں میں دامن کہیں میلا ہو جائے
رات کی نقرئی آتش میں نکھارا جاؤں
خشک کھوئے ہوئے گمنام جزیرے کی طرح
درد کے کالے سمندر سے ابھارا جاؤں
اپنی کھوئی ہوئی جنت کا طلب گار بنوں
دست یزداں سے گنہ گار سنوارا جاؤں
غزل
پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں
عادل منصوری