EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا
جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو

عادل منصوری




تو کس کے کمرے میں تھی
میں تیرے کمرے میں تھا

عادل منصوری




انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام
پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا

عادل منصوری




وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا
پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا

عادل منصوری




وہ تم تک کیسے آتا
جسم سے بھاری سایہ تھا

عادل منصوری




یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر
آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

عادل منصوری




ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

عادل منصوری