میں کہا کیا عرق ہے تجھ رخ پر
مسکرا کر کہا کہ فتنہ ہے
سراج اورنگ آبادی
مکتب میں مرے جنوں کے مجنوں
نادان ہے طفل ابجدی ہے
سراج اورنگ آبادی
مکتب عشق کا معلم ہوں
کیوں نہ ہوئے درس یار کی تکرار
سراج اورنگ آبادی
مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم
دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہول آج
سراج اورنگ آبادی
مسجد ابرو میں تیری مردمک ہے جیوں امام
موئے مژگاں مقتدی ہو مل کے کرتے ہیں نماز
سراج اورنگ آبادی
مسجد میں تجھ بھنووں کی اے قبلۂ دل و جاں
پلکیں ہیں مقتدی اور پتلی امام گویا
سراج اورنگ آبادی
مسجد وحشت میں پڑھتا ہے تراویح جنوں
مصحف حسن پری رخسار جس کوں یاد ہے
سراج اورنگ آبادی
مت کرو شمع کوں بد نام جلاتی وہ نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کو ہے جل جانے کا
cast not blame upon the flame it doesn’t burn to sear
the moths are
سراج اورنگ آبادی
مرے سیں دور کیا چاہتے ہیں سایۂ عشق
جتے ہیں شہر کے سیانے ہوئے ہیں دیوانے
سراج اورنگ آبادی