ترے سخن میں اے ناصح نہیں ہے کیفیت
زبان قلقل مینا سیں سن کلام شراب
سراج اورنگ آبادی
تری ابرو ہے محراب محبت
نماز عشق میرے پر ہوئی فرض
سراج اورنگ آبادی
تجھ زلف میں دل نے گم کیا راہ
اس پریم گلی کوں انتہا نئیں
سراج اورنگ آبادی
تمہاری زلف کا ہر تار موہن
ہوا میرے گلے کا ہار موہن
سراج اورنگ آبادی
وقت ہے اب نماز مغرب کا
چاند رخ لب شفق ہے گیسو شام
سراج اورنگ آبادی
وصل کے دن شب ہجراں کی حقیقت مت پوچھ
بھول جانی ہے مجھے صبح کوں پھر شام کی بات
سراج اورنگ آبادی
وہ عاشقی کے کھیت میں ثابت قدم ہوا
جو کوئی زخم عشق لیا دل کی ڈھال پر
سراج اورنگ آبادی
وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی
سراج اورنگ آبادی
وہ زلف پر شکن لگتی نہیں ہات
مجھے ساری پریشانی یہی ہے
سراج اورنگ آبادی