موافقت کرے کیوں میکشوں ستی زاہد
ادھر شراب ادھر مسجد و مصلیٰ ہے
سراج اورنگ آبادی
نہ ملے جب تلک وصال اس کا
تب تلک فوت ہے مرا مطلب
سراج اورنگ آبادی
نہیں بخشی ہے کیفیت نصیحت خشک زاہد کی
جلا دیو آتش صہبا سیں اس کڑبی کے پولے کوں
سراج اورنگ آبادی
نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے
سراج اورنگ آبادی
نقد دل خالص کوں مری قلب توں مت جان
ہے تجھ کوں اگر شبہ تو کس دیکھ تپا دیکھ
سراج اورنگ آبادی
نظر آتا نہیں مجھ کوں سبب کیا
مرا نازک بدن ہیہات ہیہات
سراج اورنگ آبادی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں کروں بیاں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
سراج اورنگ آبادی
نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا
سراج اورنگ آبادی
تمہاری زلف کا ہر تار موہن
ہوا میرے گلے کا ہار موہن
سراج اورنگ آبادی