تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا
چھوڑ دیو اب تو ہوا شوق نکل جانے کا
سنگ دل نے دل نازک کوں مرے چور کیا
کیا ارادہ تھا اسے شیشہ محل جانے کا
مت کرو شمع کوں بدنام جلاتی وو نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کوں ہے جل جانے کا
آفریں دل کوں مرے خوب بجا کام آیا
سچ سپاہی کو بڑا ننگ ہے ٹل جانے کا
شعلہ رو جام بکف بزم میں آتا ہے سراجؔ
گردن شمع کوں کیا باک ہے ڈھل جانے کا
غزل
تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا
سراج اورنگ آبادی