EN हिंदी
تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا | شیح شیری
tha bahana mujhe zanjir ke hil jaane ka

غزل

تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا

سراج اورنگ آبادی

;

تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا
چھوڑ دیو اب تو ہوا شوق نکل جانے کا

سنگ دل نے دل نازک کوں مرے چور کیا
کیا ارادہ تھا اسے شیشہ محل جانے کا

مت کرو شمع کوں بدنام جلاتی وو نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کوں ہے جل جانے کا

آفریں دل کوں مرے خوب بجا کام آیا
سچ سپاہی کو بڑا ننگ ہے ٹل جانے کا

شعلہ رو جام بکف بزم میں آتا ہے سراجؔ
گردن شمع کوں کیا باک ہے ڈھل جانے کا