مفتیٔ ناز نے دیا فتویٰ
خون عاشق حلال کرتا ہے
سراج اورنگ آبادی
مجھ کوں ہر آن ترے درد سیں بہبودی ہے
عشق بازی میں رخ زرد زر سودی ہے
سراج اورنگ آبادی
مجھ رنگ زرد اوپر غصے سیں لال مت ہو
اے سبز شال والے اودے رومال والے
سراج اورنگ آبادی
مشتاق ہوں تجھ لب کی فصاحت کا ولیکن
رانجھاؔ کے نصیبوں میں کہاں ہیرؔ کی آواز
سراج اورنگ آبادی
مستعد ہوں ترے زلفوں کی سیاہی لے کر
صفحۂ نامۂ اعمال کوں کالا کرنے
سراج اورنگ آبادی
موافقت کرے کیوں میکشوں ستی زاہد
ادھر شراب ادھر مسجد و مصلیٰ ہے
سراج اورنگ آبادی
نہ ملے جب تلک وصال اس کا
تب تلک فوت ہے مرا مطلب
سراج اورنگ آبادی
نہیں بخشی ہے کیفیت نصیحت خشک زاہد کی
جلا دیو آتش صہبا سیں اس کڑبی کے پولے کوں
سراج اورنگ آبادی
نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے
سراج اورنگ آبادی