خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
سراج اورنگ آبادی
کھل گئے اوس کی زلف کے دیکھے
پیچ دستار زاہد مکار
سراج اورنگ آبادی
کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے
خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز
سراج اورنگ آبادی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی
سراج اورنگ آبادی
کفر و ایماں دو ندی ہیں عشق کیں
آخرش دونو کا سنگم ہووے گا
سراج اورنگ آبادی
کیا ہوئے گا سنو گے اگر کان دھر کے تم
گزری برہ کی رات جو مجھ پر کہانیاں
سراج اورنگ آبادی
کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا
دل کا مکاں کہاں یہی دل دار کی طرف
سراج اورنگ آبادی
کیونکہ ہووے زاہد خودبیں مرید زلف یار
اس نے ساری عمر میں زنار کوں دیکھا نہ تھا
سراج اورنگ آبادی
میں ہوں تو دوانہ پہ کسی زلف کا نہیں ہوں
واللہ کہ رکھتا نہیں یک تار کسی کا
سراج اورنگ آبادی