EN हिंदी
سراج اورنگ آبادی شیاری | شیح شیری

سراج اورنگ آبادی شیر

101 شیر

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

سراج اورنگ آبادی




کھل گئے اوس کی زلف کے دیکھے
پیچ دستار زاہد مکار

سراج اورنگ آبادی




کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے
خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز

سراج اورنگ آبادی




کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی

سراج اورنگ آبادی




کفر و ایماں دو ندی ہیں عشق کیں
آخرش دونو کا سنگم ہووے گا

سراج اورنگ آبادی




کیا ہوئے گا سنو گے اگر کان دھر کے تم
گزری برہ کی رات جو مجھ پر کہانیاں

سراج اورنگ آبادی




کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا
دل کا مکاں کہاں یہی دل دار کی طرف

سراج اورنگ آبادی




کیونکہ ہووے زاہد خودبیں مرید زلف یار
اس نے ساری عمر میں زنار کوں دیکھا نہ تھا

سراج اورنگ آبادی




میں ہوں تو دوانہ پہ کسی زلف کا نہیں ہوں
واللہ کہ رکھتا نہیں یک تار کسی کا

سراج اورنگ آبادی