صنم کس بند سیں پہنچوں ترے پاس
ہزاروں بند ہیں تیری قبا کے
سراج اورنگ آبادی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
سراج اورنگ آبادی
شور ہے بسکہ تجھ ملاحت کا
دل ہمارا ہوا ہے کان نمک
سراج اورنگ آبادی
سراجؔ ان خوب رویوں کا عجب میں قاعدہ دیکھا
بلاتے ہیں دکھاتے ہیں لبھاتے ہیں چھپاتے ہیں
سراج اورنگ آبادی
سنا ہے جب سیں تیرے حسن کا شور
لیا زاہد نے مسجد کا کنارا
سراج اورنگ آبادی
تازہ رکھ آب مہربانی سیں
ایک دل سو چمن برابر ہے
سراج اورنگ آبادی
تحقیق کی نظر سیں آخر کوں ہم نے دیکھا
اکثر ہیں مال والے کم ہیں کمال والے
سراج اورنگ آبادی
تکیۂ مخملی سرہانے رکھ
لیکن آنکھوں سیں اپنی خواب نکال
سراج اورنگ آبادی
ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آقا مجھے رخصتی سلام کیا
سراج اورنگ آبادی