EN हिंदी
سراج اورنگ آبادی شیاری | شیح شیری

سراج اورنگ آبادی شیر

101 شیر

تری ابرو ہے محراب محبت
نماز عشق میرے پر ہوئی فرض

سراج اورنگ آبادی




ترے سخن میں اے ناصح نہیں ہے کیفیت
زبان قلقل مینا سیں سن کلام شراب

سراج اورنگ آبادی




ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آقا مجھے رخصتی سلام کیا

سراج اورنگ آبادی




قاتل نے ادا کا کیا جب وار اچھل کر
میں نے سپر دل کوں کیا اوٹ سنبھل کر

سراج اورنگ آبادی




صنم کس بند سیں پہنچوں ترے پاس
ہزاروں بند ہیں تیری قبا کے

سراج اورنگ آبادی




روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار
ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

سراج اورنگ آبادی




شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

سراج اورنگ آبادی




پیچ کھا کھا کر ہماری آہ میں گرہیں پڑیں
ہے یہی سمرن تری درکار کوئی مالا نہیں

سراج اورنگ آبادی




پکڑا ہوں کنارۂ جدائی
جاری مرے اشک کی ندی ہے

سراج اورنگ آبادی