تری ابرو ہے محراب محبت
نماز عشق میرے پر ہوئی فرض
سراج اورنگ آبادی
ترے سخن میں اے ناصح نہیں ہے کیفیت
زبان قلقل مینا سیں سن کلام شراب
سراج اورنگ آبادی
ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آقا مجھے رخصتی سلام کیا
سراج اورنگ آبادی
قاتل نے ادا کا کیا جب وار اچھل کر
میں نے سپر دل کوں کیا اوٹ سنبھل کر
سراج اورنگ آبادی
صنم کس بند سیں پہنچوں ترے پاس
ہزاروں بند ہیں تیری قبا کے
سراج اورنگ آبادی
روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار
ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سراج اورنگ آبادی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
سراج اورنگ آبادی
پیچ کھا کھا کر ہماری آہ میں گرہیں پڑیں
ہے یہی سمرن تری درکار کوئی مالا نہیں
سراج اورنگ آبادی
پکڑا ہوں کنارۂ جدائی
جاری مرے اشک کی ندی ہے
سراج اورنگ آبادی