نقد دل خالص کوں مری قلب توں مت جان
ہے تجھ کوں اگر شبہ تو کس دیکھ تپا دیکھ
سراج اورنگ آبادی
نظر آتا نہیں مجھ کوں سبب کیا
مرا نازک بدن ہیہات ہیہات
سراج اورنگ آبادی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں کروں بیاں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
سراج اورنگ آبادی
نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا
سراج اورنگ آبادی
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
سراج اورنگ آبادی
پکڑا ہوں کنارۂ جدائی
جاری مرے اشک کی ندی ہے
سراج اورنگ آبادی
پیچ کھا کھا کر ہماری آہ میں گرہیں پڑیں
ہے یہی سمرن تری درکار کوئی مالا نہیں
سراج اورنگ آبادی
قاتل نے ادا کا کیا جب وار اچھل کر
میں نے سپر دل کوں کیا اوٹ سنبھل کر
سراج اورنگ آبادی
روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار
ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سراج اورنگ آبادی