ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آقا مجھے رخصتی سلام کیا
سراج اورنگ آبادی
ترے سخن میں اے ناصح نہیں ہے کیفیت
زبان قلقل مینا سیں سن کلام شراب
سراج اورنگ آبادی
تری ابرو ہے محراب محبت
نماز عشق میرے پر ہوئی فرض
سراج اورنگ آبادی
تجھ زلف میں دل نے گم کیا راہ
اس پریم گلی کوں انتہا نئیں
سراج اورنگ آبادی
تمہاری زلف کا ہر تار موہن
ہوا میرے گلے کا ہار موہن
سراج اورنگ آبادی
وقت ہے اب نماز مغرب کا
چاند رخ لب شفق ہے گیسو شام
سراج اورنگ آبادی
وہ زلف پر شکن لگتی نہیں ہات
مجھے ساری پریشانی یہی ہے
سراج اورنگ آبادی
زندگانی درد سر ہے یار بن
کوئی ہمارے سر کوں آ کر جھاڑ دے
سراج اورنگ آبادی
زبس کافر ادایوں نے چلائے سنگ بے رحمی
اگر سب جمع کرتا میں تو بت خانے ہوئے ہوتے
سراج اورنگ آبادی