EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا

شہزاد احمد




اڑتے ہوئے آتے ہیں ابھی سنگ تمنا
اور کار گہہ دل کی وہی شیشہ گری ہے

شہزاد احمد




اداس چھوڑ گئے کشتیوں کو ساحل پر
گلا کریں بھی تو کیا پار اترنے والوں سے

شہزاد احمد




عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے

شہزاد احمد




عمر بھر سنتا رہوں اپنی صدا کی بازگشت
یا تری آواز بھی آئے گی میرے کان میں

شہزاد احمد




عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی
اور اب سوچتا ہوں اس کا بھروسہ کیا تھا

شہزاد احمد




اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ
احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے

شہزاد احمد




اٹھی ہیں میری خاک سے آفات سب کی سب
نازل ہوئی نہ کوئی بلا آسمان سے

شہزاد احمد




واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے
کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں

شہزاد احمد