بکھرے ہوئے تاروں سے مری رات بھری ہے
یہ نور ہے یا نور کی دریوزہ گری ہے
ہے آج بھی پہلو میں وہی زخم بہاراں
اب تک مری آنکھوں میں ہر اک شاخ ہری ہے
دنیا میں اندھیروں کے سوا اور رہا کیا
اک تیری تمنا سو چراغ سحری ہے
اب ساتھ نہ دے پائیں گے ٹوٹے ہوئے بازو
اڑتے ہوئے لمحوں سے مری ہم سفری ہے
ہر لحظہ بدلتی ہوئی آنکھوں پہ نہ جاؤ
دل کے لیے امید فزا بے خبری ہے
جلوے کی بصیرت کو سمجھتی نہیں آنکھیں
آئینے کا مقدور پریشاں نظری ہے
اڑتے ہوئے آتے ہیں ابھی سنگ تمنا
اور کار گہہ دل کی وہی شیشہ گری ہے
چپ چاپ دریچوں کی طرف دیکھتے پھرنا
زندہ ہیں تو شہزادؔ یہی در بدری ہے
غزل
بکھرے ہوئے تاروں سے مری رات بھری ہے
شہزاد احمد