دریا کبھی اک حال میں بہتا نہ رہے گا
رہ جاؤں گا میں اور کوئی مجھ سا نہ رہے گا
آسیب نظر آتے ہیں دن کو بھی یہاں پر
اس شہر میں اب کوئی اکیلا نہ رہے گا
اچھا ہے نہ دیکھیں گے نہ محسوس کریں گے
آنکھیں نہ رہیں گی تو تماشا نہ رہے گا
وہ خاک اڑے گی کہ نہ دیکھی نہ سنی ہو
دیوانہ تو کیا چیز ہے صحرا نہ رہے گا
یہ انجمن آرائی ہے اک رات کی مہمان
تا صبح کوئی دیکھنے والا نہ رہے گا
تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا
کیا کیا نظر آتا تھا کہ موجود نہیں ہے
یہ سوچ کے روتا ہوں کہ کیا کیا نہ رہے گا
آخر مرے سینے کے بھی ناسور بھریں گے
یہ باغ سدا رنگ دکھاتا نہ رہے گا
ہوں ذرۂ ناچیز مجھے کل کی نہیں فکر
مشہور جو ہیں نام انہی کا نہ رہے گا
شہزادؔ بہت خوار کیا ہم سخنی نے
کچھ دن در و دیوار سے یارانہ رہے گا
غزل
دریا کبھی اک حال میں بہتا نہ رہے گا
شہزاد احمد