EN हिंदी
دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے | شیح شیری
dil se ye kah raha hun zara aur dekh le

غزل

دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے

شہزاد احمد

;

دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے
سو بار اس کو دیکھ چکا اور دیکھ لے

اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ
احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے

صحرا میں کیا دھرا ہے ابھی شہر کو نہ چھوڑ
کچھ روز دوستوں کی وفا اور دیکھ لے

موسم کا اعتبار نہیں بادباں نہ کھول
کچھ دیر ساحلوں کی ہوا اور دیکھ لے

صحرائے آرزو ہے قدم دیکھ بھال کر
کانٹوں کی سمت آبلہ پا اور دیکھ لے

ہوتا کوئی تو پاؤں کی آہٹ سے چونکتا
جنگل ہے کر کے ایک صدا اور دیکھ لے

دل بھی تو اک دیار ہے روشن ہرا بھرا
آنکھوں کا یہ چراغ بجھا اور دیکھ لے

ممکن ہے ایک لمحے کی مہمان ہو بہار
پھولوں کی تازگی پہ نہ جا اور دیکھ لے

یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے

دیکھی تھی اک جھلک کہ اڑے رنگ ہر طرف
کوئی پکارتا ہی رہا اور دیکھ لے

شہزادؔ زندگی کے جھمیلے ہزار ہیں
دنیا نہیں پسند تو آ اور دیکھ لے