واقعہ یہ ہے کہ رستہ اور ویراں ہو گیا
پیڑ تو اپنی طرف سے پھول برساتے رہے
شہزاد احمد
ویران تو نہیں شب تاریک کی فضا
ہر سو ہوائے بادہ سے کچھ روشنی تو ہے
شہزاد احمد
وہ کون ہے اسے سورج کہوں کہ رنگ کہوں
کروں گا ذکر تو خوشبو زباں سے آئے گی
شہزاد احمد
وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی
یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے
شہزاد احمد
وہ کوئی اور ہے جس نے تجھے چاہا ہوگا
شہر میں لوگ بہت سے مری صورت کے بھی ہیں
شہزاد احمد
وہ مری صبحوں کا تارا وہ مری راتوں کا چاند
میرے دل کی روشنی تو تھا مگر میرا نہ تھا
شہزاد احمد
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہوگا
مجھ میں اتنی بھی سکت کب ہے کہ دھوکا کھاؤں
شہزاد احمد
یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد
شہزاد احمد
یہ الگ بات زباں ساتھ نہ دے پائے گی
دل کا جو حال ہے کہنا تو پڑے گا تجھ سے
شہزاد احمد