EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

شہزاد احمد




روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو
یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہوگے

شہزاد احمد




ساری مخلوق تماشے کے لیے آئی تھی
کون تھا سیکھنے والا ہنر پروانہ

شہزاد احمد




سب کی طرح تو نے بھی مرے عیب نکالے
تو نے بھی خدایا مری نیت نہیں دیکھی

شہزاد احمد




سفر بھی دور کا ہے اور کہیں نہیں جانا
اب ابتدا اسے کہیے کہ انتہا کہیے

شہزاد احمد




سفر شوق ہے بجھتے ہوئے صحراؤں میں
آگ مرہم ہے مرے پاؤں کے چھالوں کے لیے

شہزاد احمد




سحر لگتا ہے پسینے میں نہایا ہوا جسم
یہ عجب نیند میں ڈوبی ہوئی بے داری ہے

شہزاد احمد




شاید اسی باعث ہوئیں پتھر مری آنکھیں
جو کچھ کہ مجھے دیکھنا تھا دیکھ لیا ہے

شہزاد احمد




شاید لوگ اسی رونق کو گرمئ محفل کہتے ہیں
خود ہی آگ لگا دیتے ہیں ہم اپنی تنہائی کو

شہزاد احمد