عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی
اور اب سوچتا ہوں اس کا بھروسہ کیا تھا
تم نے اچھا کیا دامن کو بچا کر گزرے
ہم تو بس راہ کی مٹی تھے ہمارا کیا تھا
اس لیے آ کے ترے شہر میں آباد ہوئے
ہم کو اس دشت نوردی سے بھی لینا کیا تھا
یہ اگر سچ ہے کہ ہم اس سے بچھڑ کر خوش تھے
رات دن اس کی طرف دیکھتے رہنا کیا تھا
شوق نظارہ نے آنکھیں ہی نہیں کھلنے دیں
یہ کسی کو نہیں معلوم کہ دیکھا کیا تھا
پاؤں میرے بھی نہیں اٹھتے تھے گھر کی جانب
تم بھی جاتے ہوئے لوٹ آئے تھے ایسا کیا تھا
جال میں اس کے گرفتار تو ہونا تھا ہمیں
اس کے جادو سے نکلنے کا طریقہ کیا تھا
صبح پہچان نہ پایا کوئی صورت تیری
دل ہنگامہ طلب رات تماشا کیا تھا
صبح سورج بھی اسے دیکھنے آیا شہزادؔ
رات چمکا تھا جبیں پر جو ستارہ کیا تھا
غزل
عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی (ردیف .. ا)
شہزاد احمد