EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

سپردگی کا وہ لمحہ کبھی نہیں گزرا
ہزار بار مرے ہم ہزار بار جیے

شہزاد احمد




تختۂ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجے
اتنے لوگوں میں گناہ گار کوئی تو ہوگا

شہزاد احمد




ٹکراتا ہے سر پھوڑتا ہے سارا زمانہ
دیوار کو رستے سے ہٹاتا نہیں پھر بھی

شہزاد احمد




تلاش کرنی تھی اک روز اپنی ذات مجھے
یہ بھوت بھی مرے سر پر سوار ہونا تھا

شہزاد احمد




تمام عمر ہوا پھانکتے ہوئے گزری
رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا

شہزاد احمد




تنہائی میں آ جاتی ہیں حوریں مرے گھر میں
چمکاتے ہیں مسجد کے در و بام فرشتے

شہزاد احمد




تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا
جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے

شہزاد احمد




تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے ہیں
دل کو تنہائی کا احساس دلانے والے

شہزاد احمد




ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے
زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے

شہزاد احمد