شب ڈھل گئی اور شہر میں سورج نکل آیا
میں اپنے چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی
شہزاد احمد
شب کی تنہائیوں میں یاد اس کی
جھلملاتا ہوا دیا جیسے
شہزاد احمد
شہر کو چھوڑ کے ویرانوں میں آباد تو ہو
تجھے تنہائی کی آواز سنائی دے گی
شہزاد احمد
شک اپنی ہی ذات پہ ہونے لگتا ہے
اپنی باتیں دوسروں سے جب سنتے ہیں
شہزاد احمد
شمع جلتے ہی یہاں حشر کا منظر ہوگا
پھر کوئی پا نہ سکے گا خبر پروانہ
شہزاد احمد
شوق سفر بے سبب اور سفر بے طلب
اس کی طرف چل دیے جس نے پکارا نہ تھا
شہزاد احمد
شمار میں نہ کروں گا فراق کے شب و روز
وہیں سے بات چلے گی جہاں سے ٹوٹی تھی
شہزاد احمد
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
شہزاد احمد
ستارے اس قدر دیکھے کہ آنکھیں بجھ گئیں اپنی
محبت اس قدر کر لی محبت چھوڑ دی ہم نے
شہزاد احمد