EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

شب ڈھل گئی اور شہر میں سورج نکل آیا
میں اپنے چراغوں کو بجھاتا نہیں پھر بھی

شہزاد احمد




شب کی تنہائیوں میں یاد اس کی
جھلملاتا ہوا دیا جیسے

شہزاد احمد




شہر کو چھوڑ کے ویرانوں میں آباد تو ہو
تجھے تنہائی کی آواز سنائی دے گی

شہزاد احمد




شک اپنی ہی ذات پہ ہونے لگتا ہے
اپنی باتیں دوسروں سے جب سنتے ہیں

شہزاد احمد




شمع جلتے ہی یہاں حشر کا منظر ہوگا
پھر کوئی پا نہ سکے گا خبر پروانہ

شہزاد احمد




شوق سفر بے سبب اور سفر بے طلب
اس کی طرف چل دیے جس نے پکارا نہ تھا

شہزاد احمد




شمار میں نہ کروں گا فراق کے شب و روز
وہیں سے بات چلے گی جہاں سے ٹوٹی تھی

شہزاد احمد




سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے

شہزاد احمد




ستارے اس قدر دیکھے کہ آنکھیں بجھ گئیں اپنی
محبت اس قدر کر لی محبت چھوڑ دی ہم نے

شہزاد احمد