منزل ہے کٹھن دل بہت آرام طلب ہے
کیوں یاد مجھے آتے ہو اے بھولنے والو
شہزاد احمد
منزل پہ جا کے خاک اڑانے سے فائدہ
جن کی تلاش تھی مجھے رستے میں مل گئے
شہزاد احمد
مطلوب ہے کیا اب یہی کہتے نہیں بنتی
دامن تو بڑے شوق سے پھیلایا ہوا تھا
شہزاد احمد
میسر پھر نہ ہوگا چلچلاتی دھوپ میں چلنا
یہیں کے ہو رہوگے سائے میں اک پل اگر بیٹھے
شہزاد احمد
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے
شہزاد احمد
مجھے بس اتنی شکایت ہے مرنے والوں سے
وہ بے نیاز ہیں کیوں یاد کرنے والوں سے
شہزاد احمد
مسافر ہو تو سن لو راہ میں صحرا بھی آتا ہے
نکل آئے ہو گھر سے کیا تمہیں چلنا بھی آتا ہے
شہزاد احمد
نہ میں نے دست شناسی کا پھر کیا دعویٰ
نہ اس نے ہاتھ مجھے چومنے دیا پھر سے
شہزاد احمد
نہ ملے وہ تو تلاش اس کی بھی رہتی ہے مجھے
ہاتھ آنے پہ جسے چھوڑ دیا جاتا ہے
شہزاد احمد