EN हिंदी
شہزاد احمد شیاری | شیح شیری

شہزاد احمد شیر

192 شیر

منزل ہے کٹھن دل بہت آرام طلب ہے
کیوں یاد مجھے آتے ہو اے بھولنے والو

شہزاد احمد




منزل پہ جا کے خاک اڑانے سے فائدہ
جن کی تلاش تھی مجھے رستے میں مل گئے

شہزاد احمد




مطلوب ہے کیا اب یہی کہتے نہیں بنتی
دامن تو بڑے شوق سے پھیلایا ہوا تھا

شہزاد احمد




میسر پھر نہ ہوگا چلچلاتی دھوپ میں چلنا
یہیں کے ہو رہوگے سائے میں اک پل اگر بیٹھے

شہزاد احمد




میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے

شہزاد احمد




مجھے بس اتنی شکایت ہے مرنے والوں سے
وہ بے نیاز ہیں کیوں یاد کرنے والوں سے

شہزاد احمد




مسافر ہو تو سن لو راہ میں صحرا بھی آتا ہے
نکل آئے ہو گھر سے کیا تمہیں چلنا بھی آتا ہے

شہزاد احمد




نہ میں نے دست شناسی کا پھر کیا دعویٰ
نہ اس نے ہاتھ مجھے چومنے دیا پھر سے

شہزاد احمد




نہ ملے وہ تو تلاش اس کی بھی رہتی ہے مجھے
ہاتھ آنے پہ جسے چھوڑ دیا جاتا ہے

شہزاد احمد