تیرگی ہی تیرگی حد نظر تک تیرگی
کاش میں خود ہی سلگ اٹھوں اندھیری رات میں
شہزاد احمد
ترا میں کیا کروں اے دل تجھے کچھ بھی نہیں آتا
بچھڑنا بھی اسے آتا ہے اور ملنا بھی آتا ہے
شہزاد احمد
تری تلاش تو کیا تیری آس بھی نہ رہے
عجب نہیں کہ کسی دن یہ پیاس بھی نہ رہے
شہزاد احمد
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے
شہزاد احمد
تم ہی کیا جذب ہو گئے مجھ میں
نام لیتا ہوں بار بار اپنا
شہزاد احمد
تم کہے جاتے ہو ایسی فصل گل آئی نہیں
اور اگر میں یہ کہوں سو بار ایسا ہو چکا
شہزاد احمد
تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی
شہزاد احمد
تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ حاصل ہو گیا ہوں میں
شہزاد احمد
تمہاری بزم سے بھی اٹھ چلے ہیں دیوانے
جسے وہ ڈھونڈ رہے تھے وہ شے یہاں بھی نہیں
شہزاد احمد