اس بھرے شہر میں آرام میں کیسے پاؤں
جاگتے چیختے رنگوں کو کہاں لے جاؤں
پیرہن چست ہوا سست کھڑی دیواریں
اسے چاہوں اسے روکوں کہ جدا ہو جاؤں
حسن بازار کی زینت ہے مگر ہے تو سہی
گھر سے نکلا ہوں تو اس چوک سے بھی ہو آؤں
لڑکیاں کون سے گوشے میں زیادہ ہوں گی
نہ کروں بات مگر پیڑ تو گنتا جاؤں
کر رہا ہوں جسے بد نام گلی کوچوں میں
آنکھ بھی اس سے ملاتے ہوئے میں گھبراؤں
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہوگا
مجھ میں اتنی بھی سکت کب ہے کہ دھوکا کھاؤں
حسن خود ایک بھکاری ہے مجھے کیا دے گا
کس توقع پہ میں دامان نظر پھیلاؤں
واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے
کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں
ایک مدت سے کئی سائے مری تاک میں ہیں
کب تلک رات کی دیوار سے سر ٹکراؤں
آدمیت ہے کہ ہے گنبد بے در کوئی
ڈھونڈنے نکلوں تو اپنا بھی نہ رستہ پاؤں
لیے پھرتا ہوں خیالوں کا دہکتا دوزخ
سر سے یہ بوجھ اتاروں تو خدا ہو جاؤں
غزل
اس بھرے شہر میں آرام میں کیسے پاؤں
شہزاد احمد