EN हिंदी
ابلیس بھی رکھ لیتے ہیں جب نام فرشتے | شیح شیری
iblis bhi rakh lete hain jab nam farishte

غزل

ابلیس بھی رکھ لیتے ہیں جب نام فرشتے

شہزاد احمد

;

ابلیس بھی رکھ لیتے ہیں جب نام فرشتے
میں کیوں نہ کہوں مجھ سے بھی ہیں خام فرشتے

وہ نور ہیں میں خاک ہوں لیکن مرے باعث
لیتے نہیں اک لمحہ بھی آرام فرشتے

تنہائی میں آ جاتی ہیں حوریں مرے گھر میں
چمکاتے ہیں مسجد کے در و بام فرشتے

اک میں ہی تو ہوں رات گئے جاگنے والا
سو جاتے ہیں بے ہوش سر شام فرشتے

جنت سے نکالا ہوا انسان وہی ہے
شیطان بنے بیٹھے ہیں ناکام فرشتے

ہوں اتنا گناہ گار کہ اللہ کے آگے
لیتے ہوئے ڈرتے ہیں مرا نام فرشتے

دنیا ہوئی آباد تو میرے ہی سبب سے
انجام نہ دے پائے کوئی کام فرشتے

کیا سوچ کے انسان سے شرمائے ہوئے ہیں
دیتے نہیں دیدار سر عام فرشتے

میں ایک گناہ گار نصیحت کا ہدف ہوں
دنیا میں بھی ملتے ہیں بہر گام فرشتے

یہ دختر رز دانۂ گندم تو نہیں ہے
چکھیں تو سہی بادۂ گلفام فرشتے

یوں غیب سے میں ڈھونڈ کے لایا ہوں مضامیں
جیسے کوئی لے آئے تہہ دام فرشتے

جو بات مرے دل میں تھی آئی ہے زباں پر
اب کرتے پھریں گے مجھے بد نام فرشتے

شہزادؔ زمانہ ہوا لیکن مری جانب
لاتے نہیں اللہ کا پیغام فرشتے