جب آفتاب نہ نکلا تو روشنی کے لیے
جلا کے ہم نے پرندے فضا میں چھوڑ دیے
تمام عمر رہیں زیر لب ملاقاتیں
نہ اس نے بات بڑھائی نہ ہم نے ہونٹ سیے
سپردگی کا وہ لمحہ کبھی نہیں گزرا
ہزار بار مرے ہم ہزار بار جیے
ہزار بار وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا
اک عمر بیت گئی اس کا اعتبار کیے
خبر نہیں کہ خلا کس جگہ پہ ہو موجود
زمین پر بھی قدم پھونک پھونک کر رکھیے
سفر بھی دور کا ہے اور کہیں نہیں جانا
اب ابتدا اسے کہیے کہ انتہا کہیے
ہوا اٹھا نہ سکی بوجھ ابر کا شہزادؔ
زمیں کے اشک بھی آخر سمندروں نے پیے

غزل
جب آفتاب نہ نکلا تو روشنی کے لیے
شہزاد احمد