یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
جتنی امیدیں ہیں وابستہ ہیں تنہا تجھ سے
ہم نے پہلی ہی نظر میں تجھے پہچان لیا
مدتوں میں نہ ہوئے لوگ شناسا تجھ سے
شب تاریک فروزاں تری خوشبو سے ہوئی
صبح کا رنگ ہوا اور بھی گہرا تجھ سے
بے تعلق بھی ہیں ہر رنگ ہر انداز سے ہم
وہ تعلق بھی ہے قائم جو کبھی تھا تجھ سے
یہ الگ بات زباں ساتھ نہ دے پائے گی
دل کا جو حال ہے کہنا تو پڑے گا تجھ سے
تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا
جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے
آنکھ بھی پردہ ہے تکنے نہیں پاتی سورج
دل بھی دیوار ہے ملنے نہیں دیتا تجھ سے
کیوں ازل سے ترے ہم راہ چلا آتا ہے
جانے کیا چاہتا ہے نقش کف پا تجھ سے
یہ الگ بات تجھے ٹوٹ کے چاہا لیکن
دل بے مایہ نے کچھ بھی نہیں چاہا تجھ سے
رات آئی تو طلب شمع نہیں کی دل نے
دھوپ نکلی ہے تو سایہ نہیں مانگا تجھ سے
جس سے وابستہ ہے شہزادؔ مقدر تیرا
روشنی مانگ رہا ہے وہ ستارہ تجھ سے
غزل
یہ بھی سچ ہے کہ نہیں ہے کوئی رشتہ تجھ سے
شہزاد احمد