اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے
یہ الگ بات میسر لب گویا نہ ہوا
دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے
کسی منزل کی طرف کوئی قدم اٹھ نہ سکا
اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے
دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو
ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے
دن کی کجلائی ہوئی دھوپ میں کیا دیکھتے ہیں
شام ہوتے ہی پریشاں نظر آنے والے
جلوۂ حسن سزا وار نظر ہو نہ سکا
کچھ نہیں دیکھ سکے آنکھ اٹھانے والے
یاد ایام کے دروازے سے مت جھانک مجھے
آنکھ سے دور نہ ہو دل میں سمانے والے
تیری قربت میں گزارے ہوئے کچھ لمحے ہیں
دل کو تنہائی کا احساس دلانے والے
انہی جھونکوں سے ہے شہزادؔ چمک آنکھوں میں
یہی جھونکے ہیں چراغوں کو بجھانے والے
غزل
اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
شہزاد احمد