موم کے جسموں والی اس مخلوق کو رسوا مت کرنا
مشعل جاں کو روشن کرنا لیکن اتنا مت کرنا
حق گوئی اور وہ بھی اتنی جینا دوبھر ہو جائے
جیسا کچھ ہم کرتے رہے ہیں تم سب ویسا مت کرنا
پچھلے سفر میں جو کچھ بیتا بیت گیا یارو لیکن
اگلا سفر جب بھی تم کرنا دیکھو تنہا مت کرنا
بھوک سے رشتہ ٹوٹ گیا تو ہم بے حس ہو جائیں گے
اب کے جب بھی قحط پڑے تو فصلیں پیدا مت کرنا
اے یادو جینے دو ہم کو بس اتنا احسان کرو
دھوپ کے دشت میں جب ہم نکلیں ہم پر سایا مت کرنا
غزل
موم کے جسموں والی اس مخلوق کو رسوا مت کرنا
شہریار