پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات
کچھ بھی دکھائی دیتا نہیں دور دور تک
چبھتی ہے سوئیوں کی طرح جب رگوں میں رات
وہ کھردری چٹانیں وہ دریا وہ آبشار
سب کچھ سمیٹ لے گئی اپنے پروں میں رات
آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات
بے سمت منزلوں نے بلایا ہے پھر ہمیں
سناٹے پھر بچھانے لگی راستوں میں رات
غزل
پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
شہریار