اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
ہم بھی کبھی یہ منظر نایاب دیکھتے
ساحل کی ریت نے ہمیں واپس بلا لیا
ورنہ ضرور حلقۂ گرداب دیکھتے
بارش کا لطف بند مکانوں میں کچھ نہیں
باہر نکلتے گھر سے تو سیلاب دیکھتے
آتی کسی کو راس شہادت حسینؔ کی
دنیا میں ہم کسی کو تو سیراب دیکھتے
راتوں کو جاگنے کے سوا اور کیا کیا
آنکھیں اگر ملی تھیں کوئی خواب دیکھتے
غزل
اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
شہریار