امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
سچ خود سے بھی یہ لوگ نہیں بولنے والے
اے اہل جنوں تم یہاں بے کار میں آئے
یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تنہائی ہماری
کیا سوچ کے ہم وادئ انکار میں آئے
غزل
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
شہریار