EN हिंदी
امید سے کم چشم خریدار میں آئے | شیح شیری
ummid se kam chashm-e-KHaridar mein aae

غزل

امید سے کم چشم خریدار میں آئے

شہریار

;

امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

سچ خود سے بھی یہ لوگ نہیں بولنے والے
اے اہل جنوں تم یہاں بے کار میں آئے

یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تنہائی ہماری
کیا سوچ کے ہم وادئ انکار میں آئے